• الصفحة الرئيسيةخريطة الموقعRSS
  • الصفحة الرئيسية
  • سجل الزوار
  • وثيقة الموقع
  • اتصل بنا
English Alukah شبكة الألوكة شبكة إسلامية وفكرية وثقافية شاملة تحت إشراف الدكتور سعد بن عبد الله الحميد
 
الدكتور سعد بن عبد الله الحميد  إشراف  الدكتور خالد بن عبد الرحمن الجريسي
  • الصفحة الرئيسية
  • موقع آفاق الشريعة
  • موقع ثقافة ومعرفة
  • موقع مجتمع وإصلاح
  • موقع حضارة الكلمة
  • موقع الاستشارات
  • موقع المسلمون في العالم
  • موقع المواقع الشخصية
  • موقع مكتبة الألوكة
  • موقع المكتبة الناطقة
  • موقع الإصدارات والمسابقات
  • موقع المترجمات
 كل الأقسام | مقالات شرعية   دراسات شرعية   نوازل وشبهات   منبر الجمعة   روافد   من ثمرات المواقع  
اضغط على زر آخر الإضافات لغلق أو فتح النافذة اضغط على زر آخر الإضافات لغلق أو فتح النافذة
  •  
    أربع هي نجاة الإنسان في الدنيا والآخرة (خطبة)
    د. أحمد بن حمد البوعلي
  •  
    وحدة المسلمين (خطبة)
    د. غازي بن طامي بن حماد الحكمي
  •  
    المسارعة إلى الاستجابة لأمر الله ورسوله صلى الله ...
    د. أمين بن عبدالله الشقاوي
  •  
    فوائد وأحكام من قوله تعالى: { إذ قال الله يا عيسى ...
    الشيخ أ. د. سليمان بن إبراهيم اللاحم
  •  
    نعمة الماء (خطبة)
    الشيخ محمد عبدالتواب سويدان
  •  
    تدبر خواتيم سورة البقرة
    د. محمد بن علي بن جميل المطري
  •  
    قال ما أظن أن تبيد هذه أبدا (خطبة)
    حسان أحمد العماري
  •  
    تحريم الإهلال لغير الله تبارك وتعالى
    فواز بن علي بن عباس السليماني
  •  
    مشاهد عجيبة حصلت لي!
    أ. د. عبدالله بن ضيف الله الرحيلي
  •  
    ملخص من شرح كتاب الحج (2)
    يحيى بن إبراهيم الشيخي
  •  
    الدرس السابع عشر: آثار الذنوب على الفرد والمجتمع
    عفان بن الشيخ صديق السرگتي
  •  
    خطبة: (ومن يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب)
    الشيخ عبدالله محمد الطوالة
  •  
    سورة الكافرون.. مشاهد.. إيجاز وإعجاز (خطبة)
    د. صغير بن محمد الصغير
  •  
    من آداب المجالس (خطبة)
    الشيخ عبدالله بن محمد البصري
  •  
    خطر الميثاق
    السيد مراد سلامة
  •  
    أعظم فتنة: الدجال (خطبة)
    د. محمد بن مجدوع الشهري
شبكة الألوكة / آفاق الشريعة / منبر الجمعة / الخطب / خطب بلغات أجنبية
علامة باركود

بين النفس والعقل (2) (باللغة الأردية)

بين النفس والعقل (2) (أوردو)
حسام بن عبدالعزيز الجبرين

مقالات متعلقة

تاريخ الإضافة: 14/11/2021 ميلادي - 8/4/1443 هجري

الزيارات: 6109

 حفظ بصيغة PDFنسخة ملائمة للطباعة أرسل إلى صديق تعليقات الزوارأضف تعليقكمتابعة التعليقات
النص الكامل  تكبير الخط الحجم الأصلي تصغير الخط
شارك وانشر

نفس اور عقل کے درمیان (۲)

ترجمه

سيف الرحمن التيمي

 

پہلا خطبہ

الحمد لله الخالق البارئ المصور، المهيمن المقدم المؤخر، العزيز الجبار المتكبر، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله والحمد، وهو على كل شيء قدير، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، افترض الله على العباد طاعته وتوقيره، ومحبته وتعزيره، صلى الله وسلم عليه وعلى آله وصحبه، ومن تبعه بإحسان إلى يوم الدين.


حمد وثنا کے بعد!

میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیا ر کرنے کی وصیت کرتا ہوں: ﴿ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾ [ البقرة: 203]


ترجمہ: اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اسی کی طرف جمع کئے جاؤگے۔

 

رحمن کے بندو!اگر آپ یہ سوال کریں کہ نفس کیا ہے؟ تو دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ روح ہے، بعض لوگوں نے کہا: نفس، جسم کے ساتھ (رہنے والی )روح کا نام ہے، اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ [الزمر: 42].

ترجمہ: اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔غور کرنے والوں کے لیے اس میں یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔

 

حدیث میں آیا ہے کہ: "جب لیٹے تو کہے: "باسمك ربي، وضعتُ جنبي، وبك أرفعه، فإن أمسكتَ نفسي فارحمها، وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين" (یعنی: اے میرے رب! میں تیرا نام لے کر (اپنے بستر پر) اپنے پہلو کو ڈال رہا ہوں یعنی سونے جا رہا ہوں، اور تیرا ہی نام لے کر میں اسے اٹھاؤں گا بھی، پھر اگر تو میری جان کو (سونے ہی کی حالت میں) روک لیتا ہے (یعنی مجھے موت دے دیتا ہے) تو میری جان پر رحم فرما، اور اگر تو سونے دیتا ہے تو اس کی ویسی ہی حفاظت فرما جیسی کہ تو اپنے نیک و صالح بندوں کی حفاظت کرتا ہے)۔ پھر جب نیند سے بیدار ہوجائے تو يہ دعا پڑھے:"الحمد لله الذي عافاني في جسدي، وردَّ عليَّ روحي، وأذِن لي بذكره" (یعنی: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے بدن کو صحت مند رکھا، اور میری روح مجھ پر لوٹا دی اور مجھے اپنی یاد کی اجازت (اور توفیق) دی)۔ (اس حدیث کو ترمذی، نسائی نے روایت کیا ہے اور البانی نے حسن کہا ہے)

 

صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ شہیدوں کی : (روحیں سبز پرندوں کے اندر رہتی ہیں،، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں جو عرش الہیٰ کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں)۔

 

عالم ِ ارواح کا معاملہ بہت عجیب وغریب ہے، ہر چند کہ ہم روح کے بارے میں جانتے ہیں اور وہ ہمارے جسم میں موجود ہے، البتہ ہمیں اس کی کیفیت کا علم نہیں،   اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ﴾ [الإسراء: 85].


ترجمہ: یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دے دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔

 

حدیث میں آیا ہےکہ: "تمام ارواح مجتمع لشکر تھیں، جس جس نے ایک دوسرے کو پہچانا وہ دنیا میں ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں اور جس جس روح نے وہاں ایک دوسرے کی پہچان نہ کی وہ یہاں ایک دوسرے سے بیگانہ رہتی ہیں" (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

 

اے میرے عزیزو! قرآن کریم میں اطمینان یافتہ نفس، ملامت کرنے والے نفس اور برائی کا حکم دینے والے نفس کا ذکر آیا ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "نفوس کی تین قسمیں ہیں:

برائی کا حکم دینے والا نفس، اس سے مراد وہ نفس ہے: جس پر اپنی خواہشات کی پیروی غالب رہتی ہے ، بایں طور کہ وہ گناہوں اور نافرمانیوں میں ملوث رہتا ہے۔

 

ملامت کرنے والا نفس ، ا سے مراد وہ نفس ہے :جو گناہ تو کرتا ہے ، لیکن توبہ بھی کرتا ہے، اس کے اندر خیرو شر دونوں موجود ہوتے ہیں، لیکن جب برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو توبہ وانابت بھی کرتا ہے، اسی لئے اسے لوّامہ (ملامت کرنے والا) سے موسوم کیا گیا ، کیوں کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے ارتکاب پر وہ اپنے مالک کی ملامت کرتا ہے، اور اس لئے بھی کہ وہ خیر وشر کے درمیان تردد میں رہتاہے۔

 

اطمینان یافتہ نفس سے مراد وہ نفس ہے: جو خیر وبھلائی کو پسند کرتا اور نیکیوں سے محبت رکھتا ہے، برائیوں کو ناپسند کرتا اور اس سے نفرت رکھتا ہے، یہ اس کے اخلاق، عادات واطوار اور ملکہ وصلاحیت کا حصہ بن جاتا ہے، ایک ہی ذات کے اندر یہ مختلف حالات اور صفات پائی جاتی ہیں، البتہ ہر انسان کے اندر ایک ہی نفس ہوتا ہے، یہ ایسی چیز ہے جسے ہر شخص اپنے ندر محسوس کرتا ہے" (آپ رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا، الفتاوی: ۹/۲۹۴)

 

عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "انسان اپنے نفس کے ذریعہ نفوس کی ان مختلف قسموں کو محسوس کرسکتا ہے، کبھی اپنے نفس میں خیر وبھلائی کی رغبت پاتا ہے، خیر وبھلائی کی چاہت محسوس کرتا ہے، خیر کو انجام دیتا ہے، اور یہ نفس مُطمئِنہ ہے، اور کبھی اپنے نفس میں برائی کی رغبت محسوس کرتا ہے، برائی کو انجام بھی دیتا ہے، اور یہ برائی کا حکم دینے والا نفس ہے، اس کے بعد نفس لوّامۃ   ہے جو اس کی بد عملی پر اس کی ملامت کرتا ہے، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ گناہ کرنے کے بعد اسے اس پر شرمندگی ہوتی ہے"۔

 

ابن القیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:"بلکہ نفس ( کی کیفیت) ایک ہی دن بلکہ ایک ہی گھڑی میں ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوجاتی ہے"۔

 

میرے ایمانی بھائیو! اللہ تعالی نے عقل کو اس لئے پیدا کیا تاکہ راہِ راست کی رہنمائی کرے، غور وفکر کرے اور اپنے مالک کو صحیح راستہ دکھائے،البتہ نفس کو اس لئے پیدا کیا گیاہے کہ وہ خواہش اور آرزو کرے، چنانچہ نفس ہی محبت اور نفرت کرتا ، خوش   اور غمگین ہوتا، راضی او رغصہ ہوتا ہے، جب کہ عقل کا کام یہ ہے کہ وہ صاحبِ عقل کے سامنے نفس کی طبیعت، شہوت اور اغراض ومقاصد میں صحیح وغلط کی تمیز کرتا ، خیر وشر کا فرق بتاتا، اور نفع ونقصان سے واقف کرتا ہے۔

 

اللہ کے بندو! یہ درست نہیں کہ نفس جس چیز کی ، جس طرح اور جس مقدار میں خواہش کرے ، اسے دے دی جائے ، بلکہ عقل کا وجودضروری ہے جو   اس پر کنٹرول رکھے، چنانچہ چمڑے کی بیماری میں مبتلا شخص کا نفس چمڑے کو کھجلانا پسند کرتا ہے جب تک کہ اسے کھجلانے سے راحت ملتی اور درد کی کمی محسوس ہوتی رہتی ہے، لیکن عقل اسے زیادہ کھجلانے سے منع کرتی ہے تاکہ اس کے لئے نقصاندہ ثابت نہ ہو۔

 

عقل اگرچہ نفس کو (بعض چیزوں سے منع کرتی ہے) تاہم وہ اس کا دشمن نہیں، لیکن نفس عقل کا دشمن ہوسکتا ہے، چنانچہ جو شخص منشیات کا عادی ہوتا ہے اس کی عقل اسے منشیات سے بچنے کا حکم دیتی ہے اور اسی میں اس کی مصلحت اور فائدہ بھی ہے، لیکن اس کا نفس یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی عادت اور خواہش کے مطابق منشیات کا استعمال جاری رکھے خواہ یہ عمل اس کے لئے نقصاندہ او رہلاکت خیز ہی کیوں نہ ثابت ہو، اور شیطان کی مکاری سے یہ چیز اس کےلئے مزید خوشنما بن جاتی ہے، اسی لئے حدیث میں آیا ہے:"میں اپنے نفس کے شر اور شیطان کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں..." [اسے احمد، ابوداود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے]

 

میرے مومن بھائیو! نبی ﷐ نے فقروفاقہ سے اللہ کی پناہ طلب کی، اس کی تفسیر امام احمد نے یہ بیان کی کہ یہ نفس کی فقیری ہے، اور فقیر نفس وہ ہے جو شہوات وخواہشات کا غلام بن چکی ہو، جب نفس فقیر ہو تو مالدار کو اس کی مالداری بے نیاز نہیں کر سکتی، اور اگر نفس بے نیاز ہوجائے تو فقیر کو اس کی فقیری نقصان نہیں پہنچا سکتی، کیوں کہ نفس کی بے نیازی ومالداری یہ ہے کہ جو میسر ہو اسی پر قناعت کرے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ”تونگری یہ نہیں کہ سامان زیادہ ہو بلکہ دولت مندی یہ ہے کہ دل غنی و بے نیا ز ہو“۔ (بخاری ومسلم ) نبی ﷐ نے ایسے نفس سے پناہ طلب کی جو سیراب نہ ہو۔

 

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، ان میں جو آیت اور حکمت کی بات آئی ہے، اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔

 

دوسرا خطبہ:

الحمد لله القائل: ﴿ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى * فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى ﴾ [النازعات: 40، 41]، وصلى الله وسلم على رسوله وعبده، وعلى آله وصحبه.


حمد وصلاۃ کے بعد:

اسلامی بھائیو! ہر نفس کی طبیعت مختلف ہوتی ہے، اور نفسیاتی طبیعت میں کچھ صفات ایسی ہوتی ہیں جن پر انسان کی تخلیق ہوتی ہے، جیسے جلد بازی، غصہ، سنجیدگی اور حلم وبردباری، اس قسم کی طبیعت اور مزاج جس پر انسان کی تخلیق ہوتی ہے، اس کی تشبیہ زمین میں تخلیق کردہ معادن (کانوں) سے دی گئی ہے، حدیث میں ہے کہ: "لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح معدنیات کی کانیں ہیں، جو زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے ، وہ اگر دین کو سمجھ لیں تو زمانہ اسلام میں بھی اچھے ہیں"۔(مسلم)

 

نفس کے اندر مختلف قسم کی شہوتیں ہوتی ہیں، ان میں سے بعض شہوات میں سارے لوگ مشترک ہوتے ہیں تو بعض میں لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اور وہ خواہشات جن میں ان کااتفاق ہوتا ہے ، ان سے تعلق کی مقدار میں بھی وہ باہم مختلف ہوتے ہیں، مثال کے طور پر مال ومنال، کھانے پینے ، جاہ وحشمت اور اچھی شہرت کی محبت میں سارے لوگ مشترک ہوتے ہیں، لیکن وہ ان چیزوں سے تعلق کی مقدار میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، ہماری وہ شہوت ممنوع ہے جو اپنے مالک کو شریعت کی مخالفت تک پہنچادے، مثال کے طور پر مال کی محبت اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ فریب، رشوت اور بخیلی (جیسی مذموم صفات کے ذریعہ) اسے حاصل کرنے لگے، نفسانی شہوات میں سب سے خطرناک شہوت جاہ ومنصب کی چاہت ہے، میری مراد یہ ہے کہ: جاہ ومنصب کی چاہت اتنی بڑھ جائے کہ وہی اس کا مقصد اور منتہائے غایت بن جائے، یہی وجہ ہے کہ بعض نفوس مال کی چاہت رکھنے کے باوجود لوگوں کے درمیان جاہ وحشمت حاصل کرنے کے لئے مال لٹا تے اور سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات لوگوں کی تعریف بٹورنے کے لئے جان لینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے، حدیث میں آیا ہےکہ: "سب سے پہلے جن لوگوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی) ان میں ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جہوں نے اپنی زندگی کی قربانی پیش کی ہوگی (لیکن ان سے کہا جائے گا ) کہ: (لیکن تونے اس لئے جنگ لڑی تاکہ کہا جائے کہ: فلاں شخص بہادر ہے)۔ ایک قسم ان کی ہوگی جنہوں نے مال ودولت خرچ کیا ہوگا (لیکن ان سے کہا جائے گا) کہ: لیکن تونے ایسا اس لئے کیا تاکہ کہا جائے کہ: وہ سخی وفیاض ہے)۔ تیسری صنف ان کی ہوگی جنہوں نے اپنا وقت لگا (کر علم حاصل کیا) ہوگا لیکن (ان سے کہا جائے گا) کہ: (تو نے اس لئے علم حاصل کیا تاکہ کہا جائے کہ : فلاں عالم ہے، تونے قرآن اس لئے پڑھا تا کہا جائے کہ: وہ قاری ہے) ، ایسے تمام لوگوں نے اخلاص کے ساتھ عبادت نہیں کی، بلکہ ان کا مقصد صرف جاہ وحشمت حاصل کرنا تھا، اللہ سے ہم درگزر اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، جو شخص جاہ ومنصب کی محبت میں پڑتا ہے، وہ کبر وغرور اور بغض وحسد سے دوچار ہوتا ہے، کبر وغرور اس لئے کہ جاہ ومنصب کے ذریعہ نفس رفعت وبلندی حاصل کرنا چاہتا ہے ، اسی لئے ابوجہل نے کہا: "اللہ کے قسم! میں جانتا ہوں کہ وہ نبی ہیں، لیکن ہم عبد مناف کے بیٹوں کی پیروری کرنے والے نہیں"۔اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا: ﴿ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ ﴾ [الأنعام: 33]


ترجمہ: یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔

 

رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کا اقرار کرنے سے متکبر نفوس کے جاہ وحشمت پر ضرب پڑتی ہے، اللہ تعالی نے فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں فرمایا: ﴿ وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ﴾ [النمل: 14]


ترجمہ : انہوں نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر۔

 

نیز اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے تعلق سے فرمایا: ﴿ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ ﴾ [البقرة: 87]


ترجمہ: جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا۔

 

حدیث میں ہے کہ: "تکبر: حق کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے"۔

 

تکبر انسان کو حق کے سامنے جھکنے سے روکتا ہے ، اگرچہ حق اس کے لئے روشن اور واضح ہی کیوں نہ ہو۔

 

جب جاہ وحشمت کی چاہت مزید بڑھتی ہے تو بغض وحسد پیدا ہوتا ہے، چنانچہ جب وہ اپنے سامنے دوسرے مد مقابل کو پاتا ہے یا کسی کو اپنے سے بلند دیکھتا ہے، تو نفس چاہتا ہے کہ وہ سب اس سے پیچھے رہ جائیں تاکہ اس کی برتری ظا ہر ہو اور لوگوں کی نگا ہ میں نمایاں رہے۔اس نور کی طرح جو نگاہوں کے سامنے ہو تو اس کا جو قوی ترین حصہ ہوتا ہے وہی دکھتا ہے اور مدھم روشنی نظر نہیں آتی ہے۔ نفس میں حسد پائے جانے کی علامت یہ ہے کہ: وہ اپنے مد مقابل کی غلطیوں سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ اپنی اچھائی پر بھی اتنا خوش نہیں ہوتا ، کیوں کہ وہ ان کی پستی کا خواہاں ہوتا ہے ، اس کی ترقی کا نہیں، چنانچہ وہ سوچتا ہے کہ اگر وہ اپنی جگہ پر بھی رہے تو ا س کے مد مقابل کے پیچھے رہنے سے اس کی برتری ظاہر ہوجائے گی، لیکن جو پاکباز نفوس ہوتے ہیں وہ فضیلت وبرتری کے اسباب تلاش کرتے ہیں، جاہ ومنصب بذات خود ان کا مقصد نہیں ہوتا اور اگر وہ نتیجہ کے طور پر حاصل ہوجائے تو وہ اس پر اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے اور اس کے فتنہ سے پناہ طلب کرتے ہیں، اور اس بات سے احتیاط برتتے ہیں کہ کہیں وقت کے ساتھ ان کی نیت اور ارادہ بدل نہ جائے۔

 

اے اللہ! ہمارے دلوں کو تقوی دے ، ان کو پاکیزہ کردے، تو ہی ان دلوں کو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے ، تو ہی ان کا رکھوالا اور ان کا مددگار ہے، اے اللہ! ہم اپنے نفوس اور اپنی بد اعمالیوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اے اللہ! ہم ایسے علم سے تیری پناہ مانگتے ہیں جو کوئی فائدہ نہ دے، ایسے دل سے جو تیرے آگے جھک کر مطمئن نہ ہوتا ہو اور ایسے من سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔

 

صلى اللہ علیہ وسلم





 حفظ بصيغة PDFنسخة ملائمة للطباعة أرسل إلى صديق تعليقات الزوارأضف تعليقكمتابعة التعليقات
شارك وانشر

مقالات ذات صلة

  • بين النفس والعقل (2)
  • بين النفس والعقل (3) (باللغة الأردية)
  • الفاتحة (السبع المثاني والقرآن العظيم) (باللغة الأردية)
  • بين النفس والعقل (3) تزكية النفس (باللغة الهندية)
  • بين النفس والعقل (2) (باللغة الهندية)
  • بين النفس والعقل (1) (باللغة الهندية)
  • حقوق النفس على صاحبها (خطبة)
  • خطبة: بين النفس والعقل (1) - باللغة البنغالية
  • خطبة: بين النفس والعقل (2) - باللغة البنغالية
  • بين النفس والعقل (2) (خطبة) باللغة النيبالية

مختارات من الشبكة

  • بين النفس والعقل (1) (باللغة الأردية)(مقالة - آفاق الشريعة)
  • بين النفس والعقل (3) تزكية النفس (خطبة) باللغة النيبالية(مقالة - آفاق الشريعة)
  • خطبة: بين النفس والعقل (3) تزكية النفس - باللغة البنغالية(مقالة - آفاق الشريعة)
  • بين النفس والعقل (3) تزكية النفس(مقالة - آفاق الشريعة)
  • الدنيا بين الزاد والزهد (باللغة الأردية)(مقالة - آفاق الشريعة)
  • بين النفس والعقل (1) (خطبة) باللغة النيبالية(مقالة - آفاق الشريعة)
  • تضرع وقنوت(مقالة - آفاق الشريعة)
  • من عمل صالحا فلنفسه (باللغة الأردية)(مقالة - آفاق الشريعة)
  • يحب لأخيه ما يحب لنفسه (باللغة الأردية)(مقالة - آفاق الشريعة)
  • إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما أمور مشتبهات(مقالة - آفاق الشريعة)

 



أضف تعليقك:
الاسم  
البريد الإلكتروني (لن يتم عرضه للزوار)
الدولة
عنوان التعليق
نص التعليق

رجاء، اكتب كلمة : تعليق في المربع التالي

مرحباً بالضيف
الألوكة تقترب منك أكثر!
سجل الآن في شبكة الألوكة للتمتع بخدمات مميزة.
*

*

نسيت كلمة المرور؟
 
تعرّف أكثر على مزايا العضوية وتذكر أن جميع خدماتنا المميزة مجانية! سجل الآن.
شارك معنا
في نشر مشاركتك
في نشر الألوكة
سجل بريدك
  • بنر
  • بنر
كُتَّاب الألوكة
  • يوم مفتوح للمسجد يعرف سكان هارتلبول بالإسلام والمسلمين
  • بمشاركة 75 متسابقة.. اختتام الدورة السادسة لمسابقة القرآن في يوتازينسكي
  • مسجد يطلق مبادرة تنظيف شهرية بمدينة برادفورد
  • الدورة الخامسة من برنامج "القيادة الشبابية" لتأهيل مستقبل الغد في البوسنة
  • "نور العلم" تجمع شباب تتارستان في مسابقة للمعرفة الإسلامية
  • أكثر من 60 مسجدا يشاركون في حملة خيرية وإنسانية في مقاطعة يوركشاير
  • مؤتمرا طبيا إسلاميا بارزا يرسخ رسالة الإيمان والعطاء في أستراليا
  • تكريم أوائل المسابقة الثانية عشرة للتربية الإسلامية في البوسنة والهرسك

  • بنر
  • بنر

تابعونا على
 
حقوق النشر محفوظة © 1446هـ / 2025م لموقع الألوكة
آخر تحديث للشبكة بتاريخ : 14/11/1446هـ - الساعة: 17:59
أضف محرك بحث الألوكة إلى متصفح الويب